बुधवार, जुलाई 23, 2014

भारत के चंदे का भारत के खिलाफ दुरूपयोग

अपने शहर बैंगलूर में कुछ साल पहले फिलिस्तीनी छात्र पढने आते थे, यह सिलसिला आज भी जारी है कि कई अरब देशों के स्टूडेंट्स हमारे शहर की कॉलेजों में पढ़ रहे हैं. अपने ही मोहल्ले फ्रेज़र टाउन में कई फिलिस्तीनी छात्र हमारे पड़ोसी रह चुके हैं, साथ में फुटबॉल और वॉलीबॉल खेला करते थे. एक बात है कि हम बहुत ही कट्टर धार्मिक परिवार में पैदा हुए जिसकी वजह से बचपन से ही हमारे दिलों में अरब और अरब की क़ौम पवित्र माने जाते थे.
तभी कुछ फिलिस्तीनी दोस्तों से पूछा कि आप क्या करते हो, आपके पिता क्या करते हैं, आपके वहां कौनसा व्यापार अच्छा है आदि. यह बहुत देर से पता चला कि फ़िलिस्तीन में कोई कुछ भी काम नहीं करता सब बाकी अरब देशों से चंदा, दान लेकर ज़िन्दगी बसर कर रहे हैं. और यह भी पता चला कि भारत सरकार और कुछ अरब सरकारें मिलकर उनकी पढ़ाई का खर्च पूरा करते हैं.
अखबारों में पढ़ने को मिला है कि भारत सरकार ने फिलिस्तीनियों को कई बार बड़ी बड़ी मदद की थी.
आज मेरी समझ में आया कि फ़िलिस्तीनों को कई देशों से पैसा मिलता है जब जब इसराइल उनपर हमला करता है. दान से आने वाला पैसा ही फिलिस्तीनियों का जीवन है और जब पैसा खत्म होगया तो एक ईंट इसराइल पर फेंक कर सारी दुनिया को संकेत देंगे कि पैसा खत्म हो गया अब इसराइल चाहिए कि हमपर हमला करे.
اپنے شہر بنگلور میں کچھ سال قبل فلسطینی طلباء تعلیم حاصل کرنے آیا کرتے تھے، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے کہ کئی عرب ملکوں کے اسٹوڈینٹس ہمارے شہر کی کالجوں میں پڑھ رہے ہیں ۔ اپنے ہی محلے فریزر ٹاون میں کئی فلسطینی طلباء ہمارے پڑوسی رہ چکے ہیں، ساتھ میں فٹ بال اور والی بال بھی کھیلتے تھے ۔ ایک بات ہے کہ ہم بہت ہی کٹر مذہب گھرانے میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے بچپن سے ہی ہمارے دلوں میں عرب اور عربی لوگ مقدس مانے جاتے تھے ۔
تبھی کچھ فلسطینی دوستوں سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہو، آپ کے والد کیا کرتے ہیں، آپ کے وہاں کونسا کاروبار اچھا ہے وغیرہ ۔ یہ بات بہت دیر سے پتہ چلی کہ وہاں فلسطین میں کوئی کچھ بھی کام نہیں کرتا سب کے سب باقی عرب ملکوں سے چندہ عطیہ جات پر جی رہے ہیں ۔ اور یہ بھی پتہ چلا کہ بھارتی سرکار اور کچھ عرب سرکاریں ملکر ان کی پڑھائی کا خرچ پورا کرتے ہیں ۔
اخباروں میں پڑھنے کو آیا ہے کہ بھارت سرکار نے بھی فلسطینیوں کو کئی بار بڑی بڑی مدد کی تھی ۔
آج میری سمجھ میں آیا کہ فلسطین کو کئی ملکوں سے پیسہ ملتا ہے جب جب اسرائیل ان پر حملہ کرتا ہے ۔ عطیہ سے آنے والا پیسہ ہی فلسطینیوں کی زندگی ہے اور جب پیسہ ختم ہوگیا تو پھر سے ایک اینٹ اسرائیل پر پھینک کر ساری دنیا کو اشارہ دیں گے کہ پیسہ ختم ہوگیا اب اسرائیل کو ہم پر تھوپو ۔